غزل

ہم تھے ، کسی کا دھیان تھا ، وہ بھی نہیں رہا
اِک ربطِ جسم و جان تھا وہ بھی نہیں رہا

جھگڑا تھا میرا جس سے وہ دُنیا کدھر گئی
اِک شخص درمیان تھا وہ بھی نہیں رہا

مثلِ چراغ تیرگیِ جسم و جاں میں دِل
اِک شہرِ بے نشان تھا وہ بھی نہیں رہا

ا ینٹیں بچھی تھیں جس میں‘ وہ اِک تنگ سی گلی
اس میں مِرا مکان تھا وہ بھی نہیں رہا

دُنیا مِری نہیں نہ سہی ، تم تو ساتھ ہو
کیا کیا ہمیں گمان تھا وہ بھی نہیں رہا

نقطہ بنی ، نگاہ سے اوجھل ہوئی زمیں
سر پر اِک آسمان تھا وہ بھی نہیں رہا

مصحفؔ تمھارا نام یہیں تھا... اور اُس پہ ہاں ...
اِک سرخ سا نشان تھا وہ بھی نہیں رہا
***