مجھے گھر یاد آتا ہے

پہلے گھر ہوتے تھے

اب تو ٹی۔ وی، گیس کے چولہے ، ریفریجریٹر
قالینوں کے بیچ میں ہی رہنا ہے
یہ بھی ٹھیک ہے۔ دُنیا بدلی
ہم بھی بدلیں۔
کبھی کبھی تو ہم کو اپنا یہ بدلا بدلا رُوپ بھی اچھّا لگتا ہے
جب کچھ دِن کو (سسرال سے) دیباؔ ، اُس کا دُولہا
پھر جاویؔ ، شیریںؔ، اُن کے بچےّ آ جاتے ہیں
(بچےّ ، اُف یہ بچےّ کتنا شور مچاتے ہیں)
وہ کہتی ہے ’’ جُنوّ۔ اب یہ پیانو بند کرو
نِشّو یہ باجا مجھ کو دو
’’میرا سر پھٹتا ہے...‘‘
کبھی کبھی تو ہمیں سمے کا یہ بہروپ بھی اچھّا لگتا ہے

پھر دیباؔ کے جانے کے دِن آتے ہیں
لو۔ جاویؔ کی چھّٹی ختم ہوئی
وہ اپنے شہر چلا جاتا ہے

پھر ہم تنہا ہو جاتے ہیں
پھر ہم کو اپنا وہی پرانا ۔ بہت پرانا آنگن
وہ پیڑوں اور انسانوں سے بھرا بھرا آنگن...
یاد آتا ہے
وہ دیوار و دَر ہم جن میں رہتے تھے
ہم جس کو گھر کہتے تھے...!!


۱؂ میراجیؔ مرحوم کی ایک نظم کے عنوان سے ماخوذ ۔